حسن رضا بنارسی



رن میں یہ کہتے تھے شبیر کہا ہو اکبر

ٹھوکریں کھاتا ہے اک پیر کہاں ہو اکبر

 

جب ستمگار نے نیزہ تمھیں مارا بیٹا

اور مقتل سے مجھے تم نے پکارا بیٹا

چھن گئ آنکھوں کی تنویر کہاں ہو اکبر

رن میں یہ۔۔۔

 

اب میں دوگام بھی بیٹا نہیں چل پاتا ہوں

ٹھوکریں کھا کے ہر اک گام پہ گر جاتا ہوں

کس جگہ لائی ہے تقدیر کہاں ہو اکبر

رن میں یہ۔۔۔

 

درد و آلام سے ہمت نہیں ہارو بیٹا

مری آواز پہ لبیک پکارو بیٹا

اے مرے نانا کی تصویر کہاں ہو اکبر

رن میں یہ۔۔۔

 

کس طرح تمکو بتاوں میں بصد آہ و فغاں

در خیمہ پہ بہت دیر سے اے میرے جواں

منتظر ہے مری ہمشیر کہاں ہو اکبر

رن میں یہ۔۔۔

 

جب سے تم آئے ہو میدان میں اے نور نظر

خیمہ ال پیمبر میں بپا ہے م

غش میں ہےمادر دلگیر کہاں ہو اکبر

رن میں یہ۔۔۔

 

چادریں چھیننے جب فوج ستمگر آئ

ام لیلی بھی یہی کلمہ زباں پر لائی

چھنتی ہے چادر تطہیر کہاں ہو اکبر

رن میں یہ۔۔۔

 

اے رضا دشت میں روتے ہوئے کہتے تھے حسین

ظلم نے چھین لیا مجھسے مرے دل کا چین

قلب پر چلتی ہے شمشیر کہاں ہو اکبر

رن میں یہ۔۔۔




شب ضربت امیرالمومنین علیه السلام

مسجد  لہو  لہو  ہے  مصلی  لہو لہو

ہے  آج  قلب   شاہ   مدینہ   لہو  لہو

اپنے لہو میں تر ہوئے یوں شیر کردگار

ہوتا  ہے  جیسے  کوئ  ذبیحہ  لہو لہو

ـــــــــــــــــــــ

حقانیت کا  ایک  نگر   جنت   البقیع

باطل کے سورماؤں کا ڈر جنت البقیع

ہر اک  مکان کا ہے  جگر  خانہ  خدا

پر  خانہ خدا  کا جگر  جنت  البقیع

ــــــــــــــــــــــ

امام حسین (ع) اور قرآن

*باطل جو چاہتا تھا وہ کرنے نہیں دیا*

*اسلام کو حسین نے مرنے نہیں دیا*

*ٹکڑوں میں خود تو بٹ گیا زہرا کا لاڈلا* 

*قراں کی آیتوں کو بکھرنے نہیں دیا*

ـــــــــــــــ ـــــــ

 *دوستی اور محبت کا ادارہ ہے وطن*

*آسمانِ دلِ مومن کا ستارہ ہے وطن*

*سر کٹا سکتے ہیں ہم اپنے وطن کی خاطر*

*ہم حسینی ہیں ہمیں جان سے پیارا ہے وطن*

ـــــــــــــــــــــــ

: مجھے خدا کا حسیں انتخاب لگنے لگا

جو ڈوبتا نہیں وہ آفتاب لگنے لگا

تھا جس کے پاتھ پر خیبر کا در غدیر میں وہ

نبی کے ہاتھ پر آ کر گلاب لگنے لگا

ـــــــــــــــــــــــ

: الفت رکھے گا ہر اک انسان عسکری سے

جلتا رہے گا لیکن شیطان عسکری سے

کیا شانِ عسکری ہے یہ تم خدا سے پوچھو

اور خود خدا کی پوچھو تم شان عسکری سے

ــــــــــــــــــ

: ملک  ایران   کا   کوئ   دشمن

سامنے آ کے  لڑ نہیں   سکتا

جسکی نصرت کرے خدائے قدیر

اس کا کچھ بھی بگڑ نہیں سکتا

ــــــــــــــــــــ

*یہ   بھی  انداز   عبادت   کا    جداگانہ   ہے*

*آنکھ  میں  اشک  عزا  دل  میں عزاخانہ  ہے*

*جسم کے ساتھ جہاں روح بھی پاتی ہے شفا*

*کربلا   دنیا   کا   اک   ایسا  شفا خانہ   ہے*

ـــــــــــــــــــــــ

فاطمہ بنت محمد ! آپ کے جانے کے بعد

بے سہاروں کا سہارا ! بے سہارا ہوگیا

ــــــــــــــــــــــــــــ

سن کے بیٹوں کی شہادت کی اذاں ام البنین (ع)

گریہ کرنے کی جگہ ہیں شادماں ام البنین (ع)

فاطمہ (ع) کے صبر اور ایثار کی آتی ہے بو

آپ کی سنتا ہوں جب بھی داستاں ام البنین (ع)


صبر و وفا و عزم کے عکاس کی ہیں ماں

کرب و بلا کے جوہر و الماس کی ہیں ماں

کافی یہی ہے ان کی فضیلت کے واسطے

ام البنین (ع) حضرت عباس (ع) کی ہیں ماں

ـــــــــــــــــــ

: *علی (ع)  کا  چاہنے  والا علیِّ خامنہ ای*

*اگر  عدو   کے  مقابل  نہ  اڑ گیا  ہوتا*

*دیار شام میں بنت علی (ع) کا  روضہ بھی*

*مثالِ  روضہ  زھرا (ع)  اجڑ گیا  ہوتا*

شب 9  رجب 28 مارچ 

ــــــــــــــــــــ

*علی بھی دینے لگے تجھکو داد طرز کلام*

*تو بے زبانی میں ایسے کلام کرتا ہے*

*حجاب غیب سے اصغر (ع) ترے تبسم کو*

*امام عصر ( ع ) کا گریہ سلام کرتا ہے*

9 رجب 27 مارچ 20

ـــــــــــــــــــــ

: کیا سمجھ پائے گا کوئ انتہائے فاطمہ 

آج تک سمجھے نہیں جب ابتدائے فاطمہ

اے خدا کیسی گرانی پلہ عصمت میں ہے

وزن پیغمبر بھی اٹھتا ہے برائے فاطمہ

ــــــــــــــــــ

: *دیکھنا ہو تو ذرا حر کا مقدر دیکھئے*

*ایک قطرہ میں فضیلت کا سمندر دیکھئے*

*شہ کے قدموں میں جھکا تھا جو ندامت کے سبب*

*فخر سے اٹھا ہوا ہے اب وہی سر دیکھئے*

ـــــــــــــــــــــــ

: *مسلم بن عقیل حقیقت کا آفتاب*

*صبر و رضا کا ایک رخشندہ ماہتاب*

*ہاشم کے گلستاں کا مہکتا ہوا گلاب*

*مظلوم کربلا نے کیا جس کا انتخاب*


*دونوں جہاں میں کیوں نہ وہ عالی مقام ہو*

*کیونکر نہ اس سفیر  پہ لاکھوں سلام ہو*


*مسلم بن عقیل سفیر شہ ہدی*

*صبر و شجاعت شہ والا کا آئینہ*

*عباس با وفا کی وفاوں کا حاشیہ*

*جو بن گیا شہیدوں کی خاطر مقدمہ*


*آغاز کربلا کا وہ پہلا شہید ہے*

*مسلم کے نام پہلی شہادت کی عید ہے

ـــــــــــــــــــــــــــــــ

انبیاء آتے ہیں سلطان عرب آتے ہیں

عرش والے بھی بصد خلق و ادب آتے ہیں

ہاں نجس خون ہیں جنکے وہ نہیں آ سکتے

جشن حیدر میں فقط پاک نسب آتے ہیں


اے مومنو یہ جشن ولائے امیر ہے

یہ جشن دو جہاں میں عدیم النظیر ہے

کوئ بھی عید اس کے برابر نہ ہو سکی

سوچو کہ کتنی قیمتی عید غدیر ہے

17 ذی الحجہ شب ۔۔1439

ــــــــــــــــــــ

 جو بھی ہیں اربعین کے دشمن

اصل میں ہیں وہ دین کے دشمن

بوئے جنت نہ سونگھ پائینگے

کربلا کی زمین کے دشمن

ـــــــــــــــــــــ

: خدا یا مجھ پہ ایسی ہو نگاہ فاطمہ زھرا

کہ مرجاوں مگر چھوٹے نہ راہ فاطمہ زھرا

ولایت کے تحفظ کی جہاں تعلیم دی جائے

حقیقت میں وہی ہے درسگاہ فاطمہ زھرا

ــــــــــــــ  ـــــــــ

 *ہر وار سے بے شیر ترا وار الگ ہے*

*مسکان میں رکھی ہوئ تلوار الگ ہے*

*اعداء نے کہا وار بہت دیکھے ہیں ہم نے*

*اس ننھے مجاہد کا مگر وار الگ ہے*

ــــــــــــ ــــــــ ـــــــــــ

 سجاد ذی وقار نے زندان شام کو

میدان بندگی کا مجاہد بنا دیا

شان سجود سید سجاد دیکھٕے

زنداں کے ذرے ذرے کو ساجد بنا دیا

ـــــــــــــــــــــــــــ

اترے گا بھلا اس ذات کے معیار پر

جسکے در سے لے گیا ہے فطرس لاچار پر

ساری دنیا فخر کرتی ہے نمازوں پر مگر

فخر کرتی ہیں نمازیں عابد بیمار پر

ــــــــــــــــــــــــــــ

*لشکر میں سب حسین کے عالی ہِمَم رہے*

*بچوں کے  حوصلے بھی کسی سے نہ کم رہے*

*نبیوں کے جس زمیں پہ قدم ڈگمگائے ہیں*

*اصغر بھی اس زمین پہ ثابت قدم رہے*



ــــــــــــــــــــ

 اللہ یہ کیسی قیامت ہے درِ بنت پیمبر جلتا ہے

قرآں کے گلے میں رسی ہے اور سورہ کوثر جلتا ہے

کیا حال بیاں ہو زہرا کا پستی ہے در و دیوار کے بیچ

پہلو پہ گرا ہے دروازہ اور پیکر اطہر جلتا ہے


*زمانہ پہلے سمجھے شانِ طفلانِ ابوطالب ع*

*پھر اسکے بعد سوچے بیٹھکر شانِ ابوطالب ع*


*جدارِ خانہ حق نے کہا قرآن سے ہنس کر*

*مری آغوش میں آیا ہے قرآنِ ابوطالب ع*


*حسین ابن علی و اکبر و عبّاس (س) کی صورت*

*ہمیشہ حق کے کام آئے جوانانِ ابوطالب ع*


*مسلمانوں کے کاندھوں پر رسول حق (ص) کا احساں ہے*

*رسولِ (ص) حق کے کاندھے پر ہے احسانِ ابوطالب ع*


*علی کے بغض کا تالا لگا ہے جن کی عقلوں پر*

*انھیں کیسے سمجھ میں آئے ایمانِ ابوطالب ع*


6 مئ 20


تمہارے عشق سے خالی ہے جو دل موسی کاظم

 وہ کیسے ہوگا عشق رب کے قابل موسی کاظم



اگر کوئ مسلماں ہے ترے رتبے سے ناواقف

وہ عالم بھی اگر ہو تو ہے جاہل موسی کاظم


 

شجاعت میں سخاوت میں عبادت میں طہارت میں

نظر آتے ہیں ہر اک رخ سے کامل موسی کاظم



خمینی کوئ بنتا ہے کوئ بنتا ہے نصراللہ

ترا تھوڑا سا عرفاں ہو جو حاصل موسی کاظم



تجھے زندان میں رکھکر بھی یہ زہر دغا دینا

بتاتا ہے ترے دشمن ہیں بزدل موسی کاظم


جو تجھکو اپنا رہبر مان کر طے کرتے ہیں رستہ

وہی پاتے ہیں بس آخر میں منزل موسی کاظم


 تجھے زندان میں جسنے بھی سجدہ کرتے دیکھا ہے

وہ سجدوں سے نہیں ہو سکتا غافل موسی کاظم


جو دیوانہ تمہارے عشق میں دیوانہ ہو جائے

جہان عقل بولے اس کو عاقل موسی کاظم


ترے دشمن بھی تجھکو دیکھ کر بے ساختہ بولے

صفات احمد مرسل کے حامل موسی کاظم


*بزم ذکر معصومین علیہم السلام*


جب درِ آلِ محمّد (ص) کا میں نو کر ہو گیا

آسماں والے یہ بولے تو قد آور ہو گیا


دیکھو موسی (ع) ! آمدِ ابن نقی (ع) کے فیض سے

طور کے جیسا مدینے کا بھی منظر ہو گیا


عسکری (ع) کو لیکے اپنی گود میں بولے نقی (ع)

حسنِ یوسف (ع) ، میرے بیٹے پر نچھاور ہو گیا

ادامه مطلب

’’کربلا‘‘  کی خدمت میں اپنے تازہ الفاظ: 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یارب میں لکھنے بیٹھا ہوں دیوانِ کربلا

الفاظ ہوں عطا مجھے شایانِ کربلا


سینے پہ داغ، آنکھ میں آنسو لبوں پہ آہ

لیکر لحد میں جاونگا سامانِ کربلا


اصحاب با وفا کے لہو سے حسین (ع) نے

لکّھا ہے گرم ریت پہ قرآنِ کربلا

ادامه مطلب

زہرا کے گهرانے میں قیامت کا سماں ہے

ہر ایک طرف آج فقط آہ و فغاں ہے


اے میرے خدا اٹها آج جہاں سے

کہ علم کی آنکهوں سے بهی اب اشک رواں ہے


جو زندگی بهر روتا رہا کرب وبلا پر

اب کرب وبلا اسکے لئیے نوحہ کناں ہے


جلتا ہوا خیمہ ہو یا چهنتی ہوئ چادر

ہر درد ابهی تک دل باقر میں نہاں ہے


رخسار سکینہ پہ نشان جیسا ہے لوگو

رخسار پہ باقر کے بهی ویسا ہی نشاں ہے


وہ جلتی زمیں اور شہ دین کا لاشہ

عابد کا پسر آج تلک بهولا کہاں ہے


تم مر کے بهی مرقد میں نہ رہ پائے سکوں سے

غربت تری ٹوٹی ہوئ تربت سے عیاں ہے


یہ لکھ کے قلم اشک بہاتا ہے رضا کا

باقر کی شہادت پہ قیامت کا سماں ہے


حسن رضا بنارسی 


مقتل میں فغاں کرتی تھی یہ فاطمہ زہرا

اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے


اے حرملہ تو رحم ذرا کر لے خدارا

اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے



چھ ماہ کا بچہ کہاں اور تجھسا کہاں مرد

ہوتا ہے تجھے دیکھ کے سینے مین مرے درد

لگتا ہیکہ پھٹ جائے گا اب مرا کلیجہ


اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے


اے حرملہ بس اس کو تو مہلت دے ذرا سی

کچھ دیر میں یہ پیاس سے مر جائے گا خود ہی

اصغر نے کئ روز سے پانی نہیں پایا


اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے


: تو اس کی ذرا چھوٹی سی گردن پہ نظر کر

پھر کر تو نظر تیر وکماں تیغ و تبر پر

اس چھوٹی سی جاں پر نہ چلا تیر سہ شعبہ



اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر


 بے شیر پہ للہ نہ ڈھا اتنا بڑا قہر

کردے گا مرے بچے کو یہ مثل شتر نہر

حلقوم سے نکلے گا ابھی خون کا دھارا


اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے


وہ تیر تو اصغر کے لیئے لایا ہے ظالم

جس تیر سے حیوان بھی رہ پائے نہ سالم

للہ بتا دے مجھے یہ عدل ہے کیسا


اصغر مرا چھوٹا ہے۔۔۔


جسطرح ترپتی ہے کوئ ماہی بے آب

یوں پیاس کی شدت سے مرا بچہ ہے بیتاب

کیا یوں بھی نہیں اس کا تجھے جینا گوارا


اصغر مرا۔۔


 تو خود ہی ذرا دیکھ لے ہے تشنہ دہاں یہ

سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ پھراتا ہے زباں یہ

روتے ہین نبی دیکھ کے دلسوز نظارہ


اصغر مرا چھوٹا ہے۔۔۔


 اک بار چلا ہائے رضا تیر ستمگر

داخل ہوا اک کان سے اک کان سے باہر

پھر کہہ نہیں پائ یہ کبھی فاطمہ زہرا


اصغر مرا چھوٹا ۔۔


تبلیغات

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

پروژه‌ی پزشک‌یار آموزش بورس سطر های دلنشین حفاظ ساختمان روحِ شناورِ غیرِسرگردان مرکز تخصصی دستگاه های تصفیه آب طاها ارومیه لوازم برق صنعتی این است قدرت ما کانتر سورس بازان