مقتل میں فغاں کرتی تھی یہ فاطمہ زہرا

اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے


اے حرملہ تو رحم ذرا کر لے خدارا

اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے



چھ ماہ کا بچہ کہاں اور تجھسا کہاں مرد

ہوتا ہے تجھے دیکھ کے سینے مین مرے درد

لگتا ہیکہ پھٹ جائے گا اب مرا کلیجہ


اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے


اے حرملہ بس اس کو تو مہلت دے ذرا سی

کچھ دیر میں یہ پیاس سے مر جائے گا خود ہی

اصغر نے کئ روز سے پانی نہیں پایا


اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے


: تو اس کی ذرا چھوٹی سی گردن پہ نظر کر

پھر کر تو نظر تیر وکماں تیغ و تبر پر

اس چھوٹی سی جاں پر نہ چلا تیر سہ شعبہ



اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر


 بے شیر پہ للہ نہ ڈھا اتنا بڑا قہر

کردے گا مرے بچے کو یہ مثل شتر نہر

حلقوم سے نکلے گا ابھی خون کا دھارا


اصغر مرا چھوٹا ہے ترا تیر بڑا ہے


وہ تیر تو اصغر کے لیئے لایا ہے ظالم

جس تیر سے حیوان بھی رہ پائے نہ سالم

للہ بتا دے مجھے یہ عدل ہے کیسا


اصغر مرا چھوٹا ہے۔۔۔


جسطرح ترپتی ہے کوئ ماہی بے آب

یوں پیاس کی شدت سے مرا بچہ ہے بیتاب

کیا یوں بھی نہیں اس کا تجھے جینا گوارا


اصغر مرا۔۔


 تو خود ہی ذرا دیکھ لے ہے تشنہ دہاں یہ

سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ پھراتا ہے زباں یہ

روتے ہین نبی دیکھ کے دلسوز نظارہ


اصغر مرا چھوٹا ہے۔۔۔


 اک بار چلا ہائے رضا تیر ستمگر

داخل ہوا اک کان سے اک کان سے باہر

پھر کہہ نہیں پائ یہ کبھی فاطمہ زہرا


اصغر مرا چھوٹا ۔۔

رن میں یہ کہتے تھے شبیر

قطعات ـ سوز ـ مفردات ـ متفرقات

زمانہ پہلے سمجھے شان طفلان ابوطالب

ہے ,اصغر ,تیر ,مرا ,چھوٹا ,یہ ,مرا چھوٹا ,اصغر مرا ,ہے ترا ,چھوٹا ہے ,ترا تیر

مشخصات

تبلیغات

آخرین ارسال ها

برترین جستجو ها

آخرین جستجو ها

scince fiction کنترل شهوت MRK انواع لوازم یدکی استوک و نو را از ما بخواهید امتحانات خرداد98 موسیقی لرستان ★★★ باژبود ★★★ فروش بولت و مهره یادگیری برنامه نویسی مقدماتی یک دانشجوی اعصاب داغون